بانی كا تعارف

دین كا علم صرف مستند اور اہل حضرات سے ہی سیكھنا چاہیے ، اور كسی سے علم حاصل كرنے سے پہلے ان كے بارے میں معلوم كر لینا چاہیے ، إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تاخذون دينكم اسی مقصد كے پیش نظر بندہ اپنا تعارف كرادیتا ہے ، تاكہ آپ كو ہمارے علمی استناد اور نسبتوں كا علم ہوجائے ، اور آپ مطمئن ہوكر علم حاصل كرسكیں۔
بندہ كا نام محمد ابوامامہ ہے، اور بندہ كے اب تك كے تعلیمی احوال و كوائف مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)دورۂ حدیث شریف (۱۴۳۶ھ ۲۰۱۵ء) دارالعلوم دیوبند ۔
(۲)تكمیل علوم (۱۴۳۷) دارالعلوم دیوبند ۔(یہ شعبہ دار العلوم دیوبند میں مدرس تیار كرنے كے لیے قائم كیا گیا تھا، اسی لیے اس میں تفسیر، حدیث، اصول حدیث، اصول فقہ، عقائد، اسرار شریعت وغیرہ كی اہم كتاب پڑھائی جاتی ہے)۔
(۳)محاضرات علمیہ: تكیل علوم كے سال دارالعلِوم دیوبند كے نصاب كے مطابق ہندوازم، عیسائیت، قادیانیت، شیعیت، بریلویت، غیر مقلدیت، مودودیت كے موضوعات پر محاضرات بھی پڑھنے كا موقع ملا۔
(۴)شعبۂ عربی ادب(۱۴۳۸ھ) جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور۔
(۵)شعبۂ تخصص فی الحدیث الشریف( دو سالہ نصاب ۱۴۳۹ھ-۱۴۴۰ھ) جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور۔
(۶) شعبۂ افتاء(۱۴۴۱ ھ) جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور۔
(۷)استاذ محترم حضرت مولانا ظہیر الہدی صاحب دامت بركاتہم ( نائب مدیر ماہنامہ المظاہر و استاذ عربی ادب جامعہ مظاہر علوم سہارنپور )سے عربی سے اردو ، اور اردو سے عربی تعريب و ترجمه كے سلسلہ میں بھی استفادہ كیا ہے۔
(۸)علمی كام اور بحث وتحقیق كے لیے كمپیوٹر ، اور مكتبہ شاملہ كے استعمال كی بھی قدرے وافقیت حاصل كی ہے۔
(۹) دو اساتذہ سے دوسال انگلش بھی پڑھا ہے
اور بندہ نے اپنے اساتذہ كی خدمت میں رہ كر جو علمی كوششیں كی ہیں، ان میں سے كچھ یہ ہیں:
(۱۰)شعبۂ تخصص فی الحدیث الشریف كے سال دوم میں بندہ نے “أصول شرح الحديث” كے موضوع پر شعبۂ كے استاذ محترم حضرت مولانا خالد سعید صاحب مباركپوری دامت بركاتہم كے زیر نگرانی عربی میں ۱۶۰ صفحات میں مقالہ تحریر كیا ہے۔
(۱۱)اپنے استاذ محترم حضرت مولانا عبد العظیم بلیاوی صاحب دامت بركاتہم كی عربی تالیف “الملخص في أصول الحديث” كا آپ كے حكم اور زیر نگرانی اردو میں “خلاصۂ اصول حدیث” كے نام سے ترجمہ كی سعادت حاصل ہوئی، جو طبع ہو چكی ہے۔
(۱۲)اردو ماہنامہ مظاہرعلوم میں اپنے مذكورہ استاذ محترم كے حدیثی تحقیقات كے سلسلہ كے عربی مضامین كا اردو ترجمہ كركے شائع كر نے كا سلسلہ شروع كیا ہے۔ جس كی تین قسطیں شائع ہو چكی ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top